ya zahra madadi


88/2/18 ::  2:4 صبح

اصلاحِ امت۔۔۔ عذاب سے دوری
سورہ ہود آیت نمبر ١١٦و ١١٧:
فَلَوْلَا کَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُولُوا بَقِیَّۃٍ یَنْھَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیلاً مِمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْھُمْ، وَ اتَّبَعَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مَا اُتْرِفُوا فِیْہِ وَ کَانُوا مُجْرِمِینَ۔ وَ مَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ اَھْلَ الْقُریٰ بِظُلْمٍ وَ اَھْلُھَا مُصْلِحُونَ۔
ترجمہ:
تو تم سے پہلے زمانوں میں ایسے صاحبانِ قدرت کیوں نہیں ہوتے تھے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے، سوائے تھوڑے سے ان لوگوں کے جو ان میں سے تھے جنہیں ہم نے نجات دی۔ اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا وہ ان لذتوں کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دی گئی تھیں اور یہ لوگ مجرم تھے۔ اور تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ آبادیوں کو ان کے ظلم وستم کی وجہ سے ہلاک کرے، جب کہ وہاں کے لوگ اصلاح کرنے والے ہوں۔
 

http://taheramag.org/October_2008/Images/LeftB.jpg

نکات:
٭ ’’بقیۃ‘‘ کے معنی ہیں بچ جانے اور باقی رہ جانے والی چیز لیکن لغت عرب میں عام طور پر فضل اور قدرت پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انسان نفیس اور قیمتی مال کو اپنے پاس چھپا کر اور بچا کر رکھتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ صرف وہی لوگ میدانِ عمل میں باقی رہ جاتے ہیں جو سب سے زیادہ قدرت اور طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ لفظ ’’بقیۃ ‘‘قرآن پاک میں تین مرتبہ آیا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں پر تنقید کی ہے کہ وہ علم اور طاقت کے اسلحہ سے لیس کیوں نہیں ہوتے تاکہ معاشرے کی اصلاح کریں۔ یہ تنقید قرآن مجید میں ’’لولا‘‘ کے ساتھ بار بار دہرائی گئی ہے جن میں سورہ توبہ کی ١٢٢ اور سورہ مائدہ کی ٦٣ ویں آیت شامل ہے۔
٭ رسولِ خدا ۰ سے ایک حدیث میں منقول ہے کہ آیت ١١٧ میں ’’اصلاح‘‘ سے مراد لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ عدل و انصاف کرنا ہے۔ (تفسیر مجمع البیان)
پیام:
١۔ ہر دور میں معاشرتی برائیوں کی اصلاح نہ کرنے والے افراد کی مذمت کی گئی ہے۔ (قُرُونِ)
٢۔ نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کی سب سے زیادہ ذمہ داری صاحبانِ علم و قدرت پر عائد ہوتی ہے۔ (اُولُوا بَقِیَّۃٍ)
٣۔ ہرمعاشرہ میں ہمدرد اور مصلح افراد کی تعداد کم ہی رہی ہے۔ (اِلَّا قَلِیلاً )
٤۔ سابقہ امتوں کی پستی اور انحطاط کا سبب برائیوں سے نہ رکنا اور اس بارے میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ (اِلَّا قَلِیلاً مِمَّنْ اَنْجَیْنَا)
٥۔ اصلاح کرنے والوں کی ہمدردی اورمعاشرے کی اصلاح کانتیجہ عذابِ خدا سے نجات ہے۔ (اَنْجَیْنَا)
٦۔ ظلم، عیاشی اور جرم۔ تباہی و بربادی کی منحوس مثلث ہے۔
٧۔ خدا کے عذاب کی بھی دلیل ہوتی ہے۔ (لِیُھْلِکَ اَھْلَ الْقُریٰ بِظُلْمٍ)
٨۔ اللہ تعالیٰ مصلحین کے وجود کی وجہ سے معاشروں سے اپنا عذاب اٹھالیتا ہے۔ (لِیُھْلِکَ اَھْلَ الْقُریٰ بِظُلْمٍ وَ اَھْلُھَا مُصْلِحُونَ)
٩۔ صرف ’’صالح‘‘ ہو ناکافی نہیں بلکہ ’’مصلح‘‘ ہونا بھی ضروری ہے۔(مُصْلِحُونَ)

 


نویسنده : has

لیست کل یادداشت های این وبلاگ

خانه
پارسی بلاگ
پست الکترونیک
شناسنامه
 RSS 

:: کل بازدیدها :: 
3679


:: بازدید امروز :: 
15


:: بازدید دیروز :: 
0


:: درباره خودم ::


:: اوقات شرعی ::

:: لینک به وبلاگ :: 

ya zahra madadi

:: اشتراک در خبرنامه ::